کچھ ایسا تھا گمرہی کا سایا
اپنا ہی پتا نہ ہم نے پایا
دل کس کے جمال میں ہوا گم
اکثر یہ خیال ہی نہ آیا
ہم تو تِرے ذکر کا ہوئے جزو
تُو نے ہمیں کس طرح بُھلایا
اے دوست تِری نظر سے میرا
ایوان نگاہِ جگ مُسکایا
خُورشید اسی کو ہم نے جانا
جو ذرہ زمیں پہ مُسکرایا
مقصود تھی تازگی چمن کی
ہم نے رگِ جاں سے خوں بہایا
اُفتاد ہے سب کی اپنی اپنی
کس نے ہے کسی کا غم بٹایا
محرومئ جاوداں ہے اور میں
میں ذوقِ طلب سے باز آیا
ہر غم پہ ہے میرے نام کی مہر
فطرت کوئی غم نہیں پرایا
عبدالعزیز فطرت
No comments:
Post a Comment