Sunday 15 October 2023

کچھ ایسا تھا گمرہی کا سایا

 کچھ ایسا تھا گمرہی کا سایا

اپنا ہی پتا نہ ہم نے پایا

دل کس کے جمال میں ہوا گم

اکثر یہ خیال ہی نہ آیا

ہم تو تِرے ذکر کا ہوئے جزو

تُو نے ہمیں کس طرح بُھلایا

اے دوست تِری نظر سے میرا

ایوان نگاہِ جگ مُسکایا

خُورشید اسی کو ہم نے جانا

جو ذرہ زمیں پہ مُسکرایا

مقصود تھی تازگی چمن کی

ہم نے رگِ جاں سے خوں بہایا

اُفتاد ہے سب کی اپنی اپنی

کس نے ہے کسی کا غم بٹایا

محرومئ جاوداں ہے اور میں

میں ذوقِ طلب سے باز آیا

ہر غم پہ ہے میرے نام کی مہر

فطرت کوئی غم نہیں پرایا


عبدالعزیز فطرت

No comments:

Post a Comment