سنا ہے کھیل بگڑتے ہیں خود پسندی سے
سو ہم نے کام نکالے، نیاز مندی سے
محبتوں کا فقط ایک دِین ہوتا ہے
گریز کیوں نہیں کرتے ہو فرقہ بندی سے
تمام درد گلے آ کے لگ گئے تھے میرے
بس ایک بار صدا دی تھی درد مندی سے
دعا کا ورد بھی جاری ہے، احتیاط بھی ہے
خدا بچائے گا اب دل کی شر پسندی سے
یہ جاننے کے لیے، کیسے چیز ٹوٹتی ہے
میں بار بار گِرائی گئی بلندی سے
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment