یہ درد ایسے بھی خُوئے کمال تک آئے
اثر شگفتگئ خال خال تک آئے
کسی کے ہاتھ ہی راضی نہ تھے رفُو کے لیے
وگرنہ زخم حدِ اِندمال تک آئے
کلی چٹک کے لبوں کے مزاج تک پہنچی
گُلاب ٹُوٹ کے سُرخئ گال تک آئے
میں وہ شجر ہوں دُعائیں بچا گئیں جس کو
کلہاڑے یوں تو بہت ڈال ڈال تک آئے
عبدالرحمٰن شاکر
No comments:
Post a Comment