Monday, 16 October 2023

فریب منظر معمول چاہتی ہے کیا

 فریبِ منظرِ معمول چاہتی ہے کیا

یہ کھڑکیوں پہ جمی دھول، چاہتی ہے کیا

اکھڑتی سانسوں میں اٹکا ہوا ہے ذکر کوئی

یہ آرزوئے زیاں طول چاہتی ہے کیا

کھڑی ہے ہاتھ میں لے کے چراغ ساحل پر

ہوائے شب کوئی مستول چاہتی ہے کیا

شجر کے کان میں کچھ کہہ رہی ہے چپکے سے

یہ بد حواس خزاں، پھول چاہتی ہے کیا

کسی کے قرب کی لذت سے سیر یاب نہیں

یہ دل کی پیاس بھی محلول چاہتی ہے کیا

میں تیری آگہی کا دکھ سمجھ رہا ہوں حیات

تُو میرا عکس بھی مجہول چاہتی ہے کیا

یہ تیری وحشتِ دل رقصِ زار سے احمد

توجہ شہر کی مبذول چاہتی ہے کیا


احمد نوید

No comments:

Post a Comment