عجب اک شان سے دربار حق میں سرخرو ٹھہرے
جو دنیا کے کٹہرو ں میں عدو کے روبرو ٹھہرے
بھرے گلشن میں جن پہ انگلیاں اٹھیں وہی غنچے
فرشتوں کی کتابوں میں چمن کی آبرو ٹھہرے
اڑا کر لے گئی جنت کی خوشبو جن کو گلشن سے
انہی پھولوں کا مسکن کیوں نہ دل کی آرزو ٹھہرے
وہ چہرے نور تھا جن کا سدا رشک مہ کامل
رقیب ان کے ہوئے جو بھی، بہمیشہ سرخرو ٹھہرے
اے دانشور! تِرے آرام کے ضامن ہیں دیوانے
جو جنگاہوں میں دن اور رات ستم کے دوبدو ٹھہرے
چلو کہ اب کہیں جا کے یہ اپنے جان و دل واریں
تھمے بھی یہ سفر آخر کہیں تو جستجو ٹھہرے
عزیز احسن
No comments:
Post a Comment