اپنی بیتی ہوئی رنگین جوانی دے گا
مجھ کو تصویر بھی دے گا تو پرانی دے گا
چھوڑ جائے گا مِرے جسم میں بکھرا کے مجھے
وقتِ رخصت بھی وہ اک شام سہانی دے گا
عمر بھر میں کوئی جادو کی چھڑی ڈھونڈوں گی
میری ہر رات کو پریوں کی کہانی دے گا
ہمسفر میل کا پتھر نظر آئے گا کوئی
فاصلہ پھر مجھے اس شخص کا ثانی دے گا
میرے ماتھے کی لکیروں میں اضافہ کر کے
وہ بھی ماضی کی طرح اپنی نشانی دے گا
میں نے یہ سوچ کے بوئے نہیں خوابوں کے درخت
کون جنگل میں لگے پیڑ کو پانی دے گا؟
عزیز بانو داراب وفا
No comments:
Post a Comment