Friday, 13 October 2023

نہ دولت کی طلب تھی اور نہ دولت چاہئے ہے

 نہ دولت کی طلب تھی اور نہ دولت چاہیے ہے

محبت چاہیے تھی بس، محبت چاہیے ہے

سہا جاتا نہیں ہم سے غم ہجر مسلسل

ذرا سی دیر کو تیری رفاقت چاہیے ہے

تِرا دیدار ہو آنکھیں کسی بھی سمت دیکھیں

سو ہر چہرے میں اب تیری شباہت چاہیے ہے

کیا ہے تو نے جب ترک تعلق کا ارادہ

ہمیں بھی فیصلہ کرنے کی مہلت چاہیے ہے

یہ کیوں کہتے ہو راہ عشق پر چلنا ہے ہم کو

کہو کہ زندگی سے اب فراغت چاہیے ہے

نہیں ہوتی ہے راہ عشق میں آسان منزل

سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہیے ہے

غم جاناں کے بھی کچھ دیر تو ہم ناز اٹھا لیں

غم دوراں سے تھوڑے دن کی رخصت چاہیے ہے

ہر اک اپنی ضرورت کے تحت ہم سے ہے ملتا

ہمیں بھی اب کوئی حسب ضرورت چاہیے ہے

ہے جب سے منعکس چہرہ بدلنے کا وہ منظر

ہماری آئینہ آنکھوں کو حیرت چاہیے ہے

جو نکلیں عالم وحشت سے پھر کچھ اور سوچیں

خرد سے رابطے رکھنے کو فرصت چاہیے ہے


فرحت ندیم ہمایوں

No comments:

Post a Comment