Friday 13 October 2023

ہر سمت ہے بلند صدائے الاٹمنٹ

 زعفرانی غزل

وبائے الاٹمنٹ


ہر سمت ہے بلند صدائے الاٹمنٹ

ہائے الاٹمنٹ تو وائے الاٹمنٹ

دنیا ہے اور دین ولائے الاٹمنٹ

اب لوگ جی رہے ہیں برائے الاٹمنٹ

بندے کا اب خدا ہے خدائے الاٹمنٹ


چکی ملے، مشین ملے، بادباں ملے

پانی ملے، زمین ملے، آسماں ملے

کچھ تو مِری جناب ملے، مہرباں ملے

ہر چند حق نہیں ہے، مگر پھر بھی ہاں ملے

یعنی الاٹمنٹ برائے الاٹمنٹ


رہڑی جو بیچتا تھا اسے فیکٹری ملی

پورے تعلّقے کے عِوض لانڈری ملی

اک در ہوا جو بند تو بارہ دری ملی

ووٹر کوئی ملا نہ ملا لیڈری ملی

اور لیڈری بھی وہ جو کرائے الاٹمنٹ


کتنے مہاجرین تو آ کر چلے گئے

پٹ توڑ کر، کواڑ جلا کر چلے گئے

دیوار و در کو ٹھوک بجا کر چلے گئے

یعنی مکیں مکاں ہی اٹھا کر چلے گئے

ہے سر پہ ساتھ ساتھ ہُمائے الاٹمنٹ


کل تک گلی کے موڑ پر جو کُوٹتے تھے ٹین

’’تختہ بدوش، ٹھیلا بدست و تھڑا نشین‘‘

اک اک کے پاس آج مشینیں ہیں تین تین

‘اکثر بزرگ ان میں ہیں ’لوکل مہاجرین

بیٹھے ہیں دبدبے سے دبائے الاٹمنٹ


ضمیر جعفری

شاعر نے اس کلام میں قیام پاکستان کے بعد جائیدادوں کے معاملات میں کی جانے والے ہیرا پھیریوں کا خوب تذکرہ کیا ہے۔ وہ اکثر طنزیہ انداز میں ہیرا پھیری سے جائیداد اپنے نام کروانے والی کسی شخصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کا تکیہ کلام دہراتے کہ میرے فلاں علاقے میں پودینے کے باغات ہوا کرتے تھے۔

No comments:

Post a Comment