اکلوتی جاگیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
ہم تیری تصویر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
بیٹھے بیٹھے آزادی کے خواب سجاتے رہتے ہیں پھر
پیروں کی زنجیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
کاغذ پر پیچیدہ مصرعوں کی بھرمار لگا دیتے ہیں
پھر دیوان میر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
اپنے تیر کمان کے چِھن جانے کا گریہ کرنے والے
اوروں کی شمشیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
دور جدید ہے سارے رانجھے اپنے اپنے موبائل پر
اپنی اپنی ہیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
دن بھر سڑکوں پر انجیریں بیچنے والے بھوکے بچے
رات گئے انجیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
غالب کی غزلیں پڑھتے ہیں ذوق سے شکوہ کرتے ہیں
سودا اور دبیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
چھوٹی چھوٹی باتوں پر یوں خون خرابہ ہو جاتا ہے
ہم احرام ضمیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں
شبیر احرام
No comments:
Post a Comment