Tuesday, 3 October 2023

اکلوتی جاگیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں

 اکلوتی جاگیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں

ہم تیری تصویر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں

بیٹھے بیٹھے آزادی کے خواب سجاتے رہتے ہیں پھر

پیروں کی زنجیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں

کاغذ پر پیچیدہ مصرعوں کی بھرمار لگا دیتے ہیں

پھر دیوان میر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں

اپنے تیر کمان کے چِھن جانے کا گریہ کرنے والے

اوروں کی شمشیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں

دور جدید ہے سارے رانجھے اپنے اپنے موبائل پر

اپنی اپنی ہیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں

دن بھر سڑکوں پر انجیریں بیچنے والے بھوکے بچے

رات گئے انجیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں

غالب کی غزلیں پڑھتے ہیں ذوق سے شکوہ کرتے ہیں

سودا اور دبیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں

چھوٹی چھوٹی باتوں پر یوں خون خرابہ ہو جاتا ہے

ہم احرام ضمیر کو تکتے تکتے تھک کر سو جاتے ہیں


شبیر احرام

No comments:

Post a Comment