سنئیے عزت مآب آہستہ
یہ تھا پہلا خطاب، آہستہ
گُنگنایا میں، دیکھ کر بولے
بند کر کے کتاب، آہستہ
ہاتھ پر ہاتھ آ گیا ان کے
وہ کراہے؛ جناب آہستہ
نیند خرگوش کر گیا پوری
خاک ہے کامیاب آہستہ
زہر پینے کا شوق ہے ہم کو
پی رہے ہیں شراب آہستہ
محوِ تسبیح ہیں وہ لب سانول
کِھل رہے ہیں گُلاب آہستہ
سانول حیدری
No comments:
Post a Comment