ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے
محبت ہی صرف زندگی تو نہیں ہے
کہ تم سے الگ بھی محبت رہی ہے
خوشی کے لیے گھر ہی کافی نہیں ہے
کہ گھر سے الگ کی بھی چاہت رہی ہے
ذرا دُور چلنے کی حسرت رہی ہے
میں ویرانیوں کی اداسی کی تنہائیوں کی پسند ہوں
جزیرے بناتی ہوں پھر توڑتی ہوں
میں خوابوں کو آباد کرتی بھی ہوں راکھ کرتی بھی ہوں
میں آزاد اڑتا پرندہ ہوں جس کے لیے
آسماں کی اڑانیں بھی کم پڑ گئی ہیں
زمیں تھم گئی ہے
چراغوں کو جلنے کی عادت رہی ہے
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے
میں نادیدہ خوابوں کا احساس ہوں
فلک تک جو گونجے وہ آواز ہوں
دلوں تک جو پہنچے میں وہ ساز ہوں
گھٹن قید بندش کے احساس سے کورے جذبات سے دور ہوں مطمئن
میں سمندر ہوں بہتی ہوا اور گرجتی ہوئی موج ہوں
میں سکندر کولمبس ہوں آزاد ہوں
کہکشاں سے الگ کہکشاں اور بھی ہیں
جہانوں میں کیوں خود کو میں قید رکھوں جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
میری فطرت میں میری طاقت رہی ہے
محبت ہی صرف زندگی تو نہیں ہے
کہ تم سے الگ بھی محبت رہی ہے
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے
تبسم فاطمہ
No comments:
Post a Comment