بڑھانے آ گئے وہ فاصلے جو کم نا ہوئے
عجیب دور چلا ہے کے جس میں ہم نا ہوئے
جو اُن کی رہبری دیکھی تو راہزانی نکلی
یہ بات اچھی تھی ہم ان کے ہم قدم نا ہوئے
تمام عمر گُزاری ہے ہم نے مقتل میں
نا جانے کون سے باقی تھے جو ستم نا ہوئے
سنبھال رکھا ہے مالک نے ہے کرم اس کا
مبادا کون سے باقی تھے جو کرم نا ہوئے
وہ زہر گھول رہا ہے جو میری نس نس میں
میں چُومتا ہوں اُسے ظُلم جس کے کم نا ہوئے
ترس گئی ہیں جبینیں کہ مہر سجدے کریں
مگر نہ سیدھے وہ زُلفوں کے پیچ و خم نا ہوئے
کرنل خالد مہر
No comments:
Post a Comment