اپنی قسمت سے ہار آئے ہیں
ہم جو لمحے گُزار آئے ہیں
ایک دریا کی آرزو لے کر
ایک صحرا کے پار آئے ہیں
آج ہم بھی کسی کی چاہت کا
بوجھ دل سے اٗتار آئے ہیں
یہ نئے دور کی قیامت ہے
جسم رُوحوں کو مار آئے ہیں
ہم حقیقت کو اپنے خوبوں پر
بے نیازی سے وار آئے ہیں
مدثر عظیم
No comments:
Post a Comment