ابہام
جھوٹ غالب ہے اب کے میرے دیش میں
سچ شکستہ سا ہے سچ پریشان ہے
سچ کی راہوں میں اک خار داری سی ہے
سچ کی نیّا طوفانوں کی جھولی میں ہے
سچ کے کندھوں پہ ہیں، آفتوں کے نشاں
سچ بہت دیر سے سرد پانی میں یوں
تیرتا ہے کہ جیسے ابھی مر گیا
اتنی زحمت گوارا کیے عمر بھر
سچ تو یہ ہے کہ سچ بھی کوٸی سچ نہیں
سچ ہے شاہوں کا خود سے بنایا ہوا
سچ ہے دیوار و در میں چُنایا ہوا
سچ حکمراں کے گھر کی ہے اک داشتہ
سچ بغاوت کے پیروں کی بیڑی بھی ہے
سچ بغاوت کے ہونے کی وجہ بھی ہے
ساہوکاروں کا سچ ہے کہ بازار میں
ان منافعوں کی سیڑھی پہ چڑھتے ہوئے
سو دفعہ ڈس لیے جاٸیں پھر بھی یہاں
ان منافعوں کی گردش کا یہ سلسلہ
یونہی چلتا رہے، یونہی چلتا رہے
ٹھکیدداروں کا سچ ہے کہ مزدور کی
کام چوری کے باعث خسارہ ہوا
حکمرانوں کا سچ ہے کہ
وہ دیوتا کی طرح اس زمیں پہ اُتارے گٸے
باقی خلقت کو ان کی غلامی میں پھر
دیوتاؤں نے ہی پا بہ جولاں کیا
مُہن کاروں کا سچ ہے کہ سرمائے نے
ان کی محنت سے ترشے ہوئے محل پر
آ کے قبضہ کیا، آ کے بدلہ لیا
اس چکاچوندنی سے پرے اس طرف
ایک خیمے کا سچ ہے کہ روٹی نہیں
اس کے پہلو میں ایک دوسری جھونپڑی
جس میں ننھے سے پھولوں پہ چادر نہیں
پیر جوتوں کے ہونے سے ہیں بے خبر
زندگی ہے مگر زندگی تو نہیں
کارخانوں کا سچ ہے کہ مزدور کو
اُجرتیں بھی تواتر سے ملتی نہیں
جیل خانوں کا سچ ہے کہ
غربت ہی سب سے بڑا جرم ہے
مے پرستوں کا سچ ہے کہ مے میں کوٸی
بے حیاٸی نہیں، بدنماٸی نہیں
سچ ہے عورت کا مجھ پہ بڑا جبر ہے
سچ ہے کسان کا، سچ ہے دہقان کا
کشت میں آب ہے کشت میں خون ہے
کشت میری جوانی بڑھاپا بھی ہے
کشت رگ رگ میں بہتے لہو کی طرح
کشت طفلِ پریشاں کی مسکان ہے
اس پہ ڈاکہ پڑا، اس کو روندا گیا
میرے بچوں کے منہ کے نوالے گٸے
میرے بچے سرابوں میں ٹالے گٸے
سب کا سچ ہے الگ سب کا سچ منفرد
سب نباتات و حیوان وحشرات کا
سچ ہے جیون میں کوٸی خلل نہ پڑے
ان کے جنگل میں شہروں سے آیا ہوا
کوٸی بندوق بردار نہ گُھس سکے
سچ ہے چلمن کااپنی وفا کے لیے
راہ چلتا نہ گھر میں یوں جھانکا کرے
سچ ہے عاشق کا اس کے بھی ارمان یوں
بے رخی کی چِتا میں نہ جلتے رہیں
مامتاٶں کا سچ ہے کہ آنچل تلے
کھیلتے ننھے پھولوں کی مُسکان پر
سرد لہجوں کا تِنکا اثر نہ پڑے
نوجوانوں کا سچ ہے کہ ان کے لیے
قدغنوں سے بھرے ایسے بازار ہیں
جن میں جیون کی کوٸی بھی رنگت نہیں
جھوٹ و سچ میں یہ الجھی ہوٸی زندگی
کیسے محرم کو مجرم بناتی ہوٸی
کیسے مجرم کو محرم بناتی رہی
بالا دستوں کے جھوٹوں کو سچ کر گٸی
زیرِدستوں کے سچ کا نشاں تک نہیں
جس لہو سے یہ اینٹوں کا بھٹا جلا
اس لہو کا کہیں پر گُماں تک نہیں
جس بدن کی حرارت سے اینٹیں بنی
اس کی محنت کا قطرہ بیاں تک نہیں
قصرِ سلطاں کی یہ مرمریں راہگزر
جس کی صنعت ہے اس کا پتا تک نہیں
کوچۂ خامشاں کچھ پتا تو چلے
کوچۂ بدگماں اب دِیا تو جلے
شہر بھر میں اندھیرے بہت ہو چلے
اب چراغوں کی لو کو بڑھا دیجیے
اب سرابوں کو یکسر مٹا دیجیے
کیجیے رقص و محفل کا کچھ اہتمام
آ کے معمارِ شہر و چمن دشت سے
پردۂ خوف کو اب گِرا دیجیے
سین ساقی
No comments:
Post a Comment