Friday, 1 December 2023

ادھورا اپنی ہی زندگی کا حساب ٹھہرا

 ادھورا اپنی ہی زندگی کا حساب ٹھہرا

جو چاہے پڑھ لے ہمارا چہرہ کتاب ٹھہرا

سنا تھا کانوں سے جو بھی اس نے وہ سب حقیقت

ہماری آنکھوں نے جو بھی دیکھا وہ خواب ٹھہرا

اکٹھا زر کر لیا ہے اس نے بھی اپنے گھر میں

رذیل جتنا تھا،۔ اتنا عزت مآب ٹھہرا

سنا ہے میں نے وہ شخص بھی بن گیا ہے اچھا

ملوں گا کیسے کہ میں تو آخر خراب ٹھہرا

غریب ہر کوئی ناچتا ہے انہیں کی دُھن پر

یہ دستِ اہلِ عرب میں کیسا رباب ٹھہرا

کِیا ہے احسان، موت نے دی نجات مجھ کو

شکایتوں کا بھی ختم سیفی! لو باب ٹھہرا


حبیب سیفی

No comments:

Post a Comment