عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زمانہ حُسنِ پیمبرﷺ کی دسترس میں رہا
پرندہ جیسے خُوشی سے حدِ قفس میں رہا
جمالِ "کُن" کی تجلّی کے بعد یہ عالم
مِرے حضورؐ شہِ بحر و بر کے بس میں رہا
کسی نظارے سے دل کو مزہ نہیں حاصل
مزہ جو گُنبدِ خضریٰ! تِرے کلس میں رہا
اسے تو اس کے گُماں سے زیادہ بخشا گیا
فقیر شہرِ مدینہ میں جس ہوس میں رہا
تسلیاں مجھے دیتے ہیں آ کے طیبہ سے
یہ کیسا سوز ابھی تک نوائے خس میں رہا
سُنہری جالیاں، وہ در، وہ گُنبدِ خضریٰ
بڑا ہی لُطف تصوّر کے کینوس میں رہا
عطا! مدینۂ اطہر کا اِذن ملتے ہی
خِرد پہ قابو رہا اور نہ دل ہی بس میں رہا
عطا اشرفی
No comments:
Post a Comment