رونے سے کم ہوا نہ ہمارے جگر کا بوجھ
دامن پہ آ کے ٹھہر گیا چشمِ تر کا بوجھ
کل ہم نے اپنے سر پہ اُٹھا لی تھی کائنات
اُٹھتا نہیں ہے آج مگر اپنے سر کا بوجھ
وہ دُور اپنے بام سے جھانکا ہے پھر کوئی
اب آسماں اُتار کے پھینکے قمر کا بوجھ
وہ پُوچھتے ہیں آج مِری اُلجھنوں کی بات
شاید چھتیں اُٹھائیں گی دیوار و در کا بوجھ
انجم! وہیں پہ ٹُوٹ گئے سارے سلسلے
ان سے نہ اُٹھ سکا تِری تشنہ نظر کا بوجھ
عظیم انجم
No comments:
Post a Comment