آبشاروں کی یاد آتی ہے
پھر کناروں کی یاد آتی ہے
جو نہیں ہیں مگر انہیں سے ہوں
ان نظاروں کی یاد آتی ہے
زخم پہلے اُبھر کے آتے ہیں
پھر ہزاروں کی یاد آتی ہے
آئینے میں نہار کر خود کو
کچھ اشاروں کی یاد آتی ہے
اور تو مجھ کو یاد کیا آتا
ان پُکاروں کی یاد آتی ہے
آسماں کی سیاہ راتوں کو
اب ستاروں کی یاد آتی ہے
کمار وشواس
No comments:
Post a Comment