ہر خُدا کے حضُور جُھکتے ہیں
کام پھر بھی ہمارے رُکتے ہیں
آ تو جاؤں، مگر تمہارے خط
اہلِ کُوفہ سے مِلتے جلتے ہیں
ایک دن رہ میں اس کو بُھوک لگی
تب سے پیڑوں پہ سیب اُگتے ہیں
بس ازل یا ابد میں ہم دونوں
ایک نُقطے پہ آ کے رُکتے ہیں
میرے دُکھ ایسے پیڑ ہیں فارز
ایک کٹتا ہے، چار اُگتے ہیں
فراز محمود فارز
No comments:
Post a Comment