Saturday, 2 December 2023

بلندی پر بہت اپنا مقدر دیکھ آیا ہوں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بلندی پر بہت اپنا مقدر دیکھ آیا ہوں

صفا سے خانۂ کعبہ کا منظر دیکھ آیا ہوں

حطیم و سنگ اسود، ملتزم، میزاب رحمت پر

لرزتے ہونٹ، آنکھوں میں سمندر دیکھ آیا ہوں

سر جمرات دنیائے بدی پر وار کرنے کو

جنوں کے ہاتھ میں تیار پتھر دیکھ آیا ہوں

تڑپنا پھول سے معصوم کا تپتی چٹانوں پر

تصور میں صفا مروہ کو رکھ کر دیکھ آیا ہوں

کسی کی ایڑیوں سے وہ سمندر کا ابل پڑنا

کسی کے صبر کی عظمت کا پیکر دیکھ آیا ہوں

غلاف خانۂ کعبہ پہ دونوں ہاتھ پھیلائے

میں اپنے ہاتھ میں بخت سکندر دیکھ آیا ہوں

وہ پیدل قافلے سوئے منیٰ، عرفات، مُزدلفہ

کہ دھرتی پر ابابیلوں کا لشکر دیکھ آیا ہوں

ہزاروں سال کی تاریخ آنکھوں میں سمٹ آئی

خلیل اللهؑ کے پیروں کا پتھر دیکھ آیا ہوں

لہو میں تر بتر نعلین، طائف، وادئ نخلہ

جہاں زخمی ہوا رحمت کا پیکر دیکھ آیا ہوں

حرا، بدر و احد، خندق قبا، صفہ کی نظروں میں

بکھرتے ٹوٹتے خوابوں کے تیور دیکھ آیا ہوں

وہ دامن میں احد کے سید الشہداء فی الجنۃ

نبیﷺ کی فاطمہؑ کی قبر اطہر دیکھ آیا ہوں

خوشا! اے اشتیاق دید غار ثور پر چڑھ کر

تصور میں وہ مکڑی وہ کبوتر دیکھ آیا ہوں

حرم سے دور طائف سے پرے چھوٹی پہاڑی پر

حلیمہ کے جہاں ہوتے تھے چھپر دیکھ آیا ہوں

کبھی چلنا کبھی مڑ مڑ کے رکنا، رک کے رو پڑنا

وداعی کی گھڑی جزبوں کا محشر دیکھ آیا ہوں

جہاں پر ختم ہیں سیل جنوں کے سلسلے بزمی

نبی کا روضہ و محراب و منبر دیکھ آیا ہوں


سرفراز بزمی

No comments:

Post a Comment