تصویر کی تھوڑی سی وضاحت ہی تو کی ہے
ہر بات مصور نے کہاں ہم سے کہی ہے
ہو اس کو مٹانے میں اسے کیسا تأمل
دنیا یہ بھلا کون سا مشکل سے بنی ہے
مشکیزۂ ہستی پہ بہت تیر لگے ہیں
اور چاروں طرف تشنہ لبی تشنہ لبی ہے
آغاز بھی مجھ سے ہے اور انجام بھی مجھ پر
دنیا مِری ہم عمر ہے چھوٹی نہ بڑی ہے
اک خواب تھا تیرا جو مِری لے گیا آنکھیں
اک یاد ہے تیری جو گلا گھونٹ رہی ہے
بس ایک وہ انکار پرانا ہے سلامت
باقی تو مِرے شہر میں ہر چیز نئی ہے
بس شعر سنانے کی ہمیں دی ہے اجازت
اس نے ہمیں رونے کی سہولت کہاں دی ہے
اب خیمۂ دل کا ہے سفر پہرہ ضروری
اُلفت کی طنابوں کو ہوس کاٹ رہی ہے
سفر نقوی
No comments:
Post a Comment