نفرت بھی اسی کی ہے محبت بھی اسی کی
سوغات ہے یہ درد کی دولت بھی اسی کی
یہ لمحہ بھی، اس لمحے کی مہلت بھی اسی کی
جو دید سے محروم وہ ساعت بھی اسی کی
جس درد کے صحرا کا یہ منظر ہے نظر میں
درپیش ہے اک عُمر مُسافت بھی اسی کی
بے چہرہ ہوئے آج مگر کس سے شکایت
آئینہ اسی کا ہے تو حیرت بھی اسی کی
اس زہر کے موسم میں عجب پُھول کِھلے ہیں
مہکی ہے ہر اک سمت جراحت بھی اسی کی
وہ ساتھ تھا شبنم تو ہواؤں پہ قدم تھے
اب ڈُوب گئے ہم تو ندامت بھی اسی کی
صدیقہ شبنم
No comments:
Post a Comment