Sunday, 19 January 2025

ملنا وہ سرسری تھا سر رہگزار تھا

 ملنا وہ سرسری تھا، سر رہگزار تھا

اس اولیں نظر کا ہدف، دل کے پار تھا

اس کی گلی میں جا کے چلا آیا بن ملے

جانے یہ کیا جنوں مِرے سر پر سوار تھا

مجنوں کو دیکھ کر سگِ لیلیٰ کا بھونکنا

یہ سلسلہ بھی باعث تشہیر یار تھا

دیکھا تو اپنے گھر کے ہی دوچار فرد تھے

کہنے کو اک زمانہ مِرا غمگسار تھا

کیا جانے کس نے توڑ کے کالر سجالیا

وہ پھول جو ضمانت حسن بہار تھا

نیچی نظر، تھکے تھکے لہجے میں معذرت

ترک طلب کا لمحہ، ظفر یادگار تھا


قاضی ظفر اقبال

No comments:

Post a Comment