کیا پوچھ رہے ہو دل بیمار کی باتیں
کمبخت سمجھتا ہی نہیں پیار کی باتیں
صیاد نے سن لی تو بڑھا دے گا ستم اور
چھیڑو نہ قفس میں گل و گلزار کی باتیں
آنکھوں سے رواں ہو گیا اشکوں کا سمندر
یاد آئیں جو بچھڑے ہوئے غمخوار کی باتیں
ہر ڈوبنے والے کے بڑھاتے ہیں مراتب
طوفان کے قصے ہوں کہ منجدھار کی باتیں
غمگین محبت کی حقیقت ہو وہاں کیا
عنوان ہوں جس بزم کے ہتھیار کی باتیں
غمگین قریشی
محمد رمضان
No comments:
Post a Comment