Thursday, 23 January 2025

کیا پوچھ رہے ہو دل بیمار کی باتیں

 کیا پوچھ رہے ہو دل بیمار کی باتیں

کمبخت سمجھتا ہی نہیں پیار کی باتیں

صیاد نے سن لی تو بڑھا دے گا ستم اور

چھیڑو نہ قفس میں گل و گلزار کی باتیں

آنکھوں سے رواں ہو گیا اشکوں کا سمندر

یاد آئیں جو بچھڑے ہوئے غمخوار کی باتیں

ہر ڈوبنے والے کے بڑھاتے ہیں مراتب

طوفان کے قصے ہوں کہ منجدھار کی باتیں

غمگین محبت کی حقیقت ہو وہاں کیا

عنوان ہوں جس بزم کے ہتھیار کی باتیں


غمگین قریشی

محمد رمضان

No comments:

Post a Comment