جب کسی یاد کے مندر میں گجر بول پڑا
اک مؤذن بھی سر وقت سحر بول پڑا
دیکھ کر میرے خد و خال کو اک آئینہ
کتنا خاموش طبیعت تھا مگر بول پڑا
روز چپ چاپ وہ رستے سے گزر جاتا ہے
اور میں سوچتا رہتا ہوں اگر بول پڑا
میرے آنے کی خوشی تھی کہ تغافل کا گلہ
ایک مدت سے جو خاموش تھا در بول پڑا
پھر فضاؤں میں سخن گھولنے بادل آئے
پھر چلی تیز ہوا اور شجر بول پڑا
قیس رضا
No comments:
Post a Comment