نہ ہو گر نہیں ان سے ملنے کا یارا
خودی ہے سلامت خدا ہے ہمارا
بھڑکتا ہے بجھ بجھ کے اکثر دوبارا
انوکھا ہے کیا زندگی کا شرارہ
اک امید موہوم پر جی رہا ہوں
کہ تنکے کا ہے ڈوبتے کو سہارا
نگاہ کرم ہو جو رندوں پہ ساقی
تو زہر ہلاہل بھی قند گوارا
چراغ حرم ہے نہ ہرگز بجھے گا
یہ دل شعلۂ عشق کا ہے شرارہ
میں یوں عرش سے فرش پر آ گرا ہوں
کہ آکاش سے جیسے ٹوٹا ہو تارا
ملے کامرانی کے پھول اس کو اکثر
کیا جس نے کانٹوں میں رہ کر گزارا
ظفر موج طوفاں سے ہم کھیلتے ہیں
مبارک انہیں جن کو ساحل ہے پیارا
سعید الظفر چغتائی
No comments:
Post a Comment