Thursday, 30 January 2025

نہ ہو گر نہیں ان سے ملنے کا یارا

 نہ ہو گر نہیں ان سے ملنے کا یارا

خودی ہے سلامت خدا ہے ہمارا

بھڑکتا ہے بجھ بجھ کے اکثر دوبارا

انوکھا ہے کیا زندگی کا شرارہ

اک امید موہوم پر جی رہا ہوں

کہ تنکے کا ہے ڈوبتے کو سہارا

نگاہ کرم ہو جو رندوں پہ ساقی

تو زہر ہلاہل بھی قند گوارا

چراغ حرم ہے نہ ہرگز بجھے گا

یہ دل شعلۂ عشق کا ہے شرارہ

میں یوں عرش سے فرش پر آ گرا ہوں

کہ آکاش سے جیسے ٹوٹا ہو تارا

ملے کامرانی کے پھول اس کو اکثر

کیا جس نے کانٹوں میں رہ کر گزارا

ظفر موج طوفاں سے ہم کھیلتے ہیں

مبارک انہیں جن کو ساحل ہے پیارا


سعید الظفر چغتائی

No comments:

Post a Comment