غموں کی تشنگی ہے رقص کرنا
بدن کی شاعری ہے رقص کرنا
گھٹن کی خود کشی ہے رقص کرنا
فرارِ بے بسی ہے رقص کرنا
زمانہ کافری ہے رقص کرنا
مِری آوارگی ہے رقص کرنا
فنا کے راستوں کی گرد ہو کر
خدا سے عاشقی ہے رقص کرنا
اڑا کے دھجیاں اپنی انا کی
بشر کی عاجزی ہے رقص کرنا
محب کو جھومنا پڑتا ہے ہر دم
محب کو دائمی ہے رقص کرنا
اٹھا سر سجدے سے کر رقص زاہد
بڑی خوش قسمتی ہے رقص کرنا
میسر چیز پر ہو رونا کیوں کر
کسی شے کی کمی ہے رقص کرنا
منا لے یار جیسے بھی جی چاہے
طریقہ آخری ہے رقص کرنا
جنونِِ عشق میں بسمل کے احسن
لہو میں اک غشی ہے رقص کرنا
عمیر احسن
No comments:
Post a Comment