Saturday, 18 January 2025

کبھی تنہائی منزل سے جو گھبراتا ہوں

 کبھی تنہائیٔ منزل سے جو گھبراتا ہوں

ان کی آواز یہ آتی ہے کہ میں آتا ہوں

بے خودی کی یہی تکمیل ہے شاید اے دوست

تو جو آتا ہے تو میں ہوش میں آ جاتا ہوں

یہ ترا در بھی ہے کعبہ بھی ہے بت خانہ بھی

سجدے کرتا ہوا میں سب کو یہیں پاتا ہوں

طور خاموش سہی جلوے تو خاموش نہیں

بجلیاں کوندتی پاتا ہوں جدھر جاتا ہوں

اب اسے ڈھونڈنے والا نہیں بھٹکے گا کوئی

میں رہ‌ دوست میں اک نقش بنا جاتا ہوں

کون آواز دئیے جاتا ہے مجھ کو قیصر

کہ میں ہر گام پہ کہتا ہوں ابھی آتا ہوں


قیصر وارثی

No comments:

Post a Comment