بستیوں پر جھوٹ کی کالی گھٹا منڈلا گئی
سچ ہوا رزقِ ہوا، جذبوں کی رُت مُرجھا گئی
شہر میں کوئی نہیں اب سچّے لفظوں کا امیں
مصلحت کی بیل سب سرسبزیوں پر چھا گئی
جُرم اتنا تھا کہ نخلِ نو میں تھا عزمِ نمو
بے طلب رُت کی تمازت قہر سا برسا گئی
اب تو شہرِ خواب بھی ہے قریۂ بے سائباں
ایک آندھی، زرد آندھی پیڑ سارے کھا گئی
ہر نئی رُت سبز پہناوے پہن کر آئی تھی
جاتے جاتے سرزمیں کو زردیاں پہنا گئی
فیروز شاہ
No comments:
Post a Comment