Saturday, 18 January 2025

خون کے دریا میں دہشت کے بھنور ڈالے گئے

 خون کے دریا میں دہشت کے بھنور ڈالے گئے

دل میں انسانوں کے نفرت کے شرر ڈالے گئے

عیش کے لمحات ہیں اہلِ سیاست کے لیے

سختیوں میں عمر بھر اہلِ ہنر ڈالے گئے

مسکرانے کا عمل بھی یاد ہم کو اب نہیں

درد و غم کے بوجھ ہم پر اس قدر ڈالے گئے

خوف کے سائے میں میری کٹ رہی ہے زندگی

میری قسمت میں شکستہ بام و در ڈالے گئے

نقوی! اپنی زندگی بھی کربلا جیسی لگی

اس طرح اس عہد میں سر کاٹ کر ڈالے گئے


محمد صدیق نقوی

No comments:

Post a Comment