خون کے دریا میں دہشت کے بھنور ڈالے گئے
دل میں انسانوں کے نفرت کے شرر ڈالے گئے
عیش کے لمحات ہیں اہلِ سیاست کے لیے
سختیوں میں عمر بھر اہلِ ہنر ڈالے گئے
مسکرانے کا عمل بھی یاد ہم کو اب نہیں
درد و غم کے بوجھ ہم پر اس قدر ڈالے گئے
خوف کے سائے میں میری کٹ رہی ہے زندگی
میری قسمت میں شکستہ بام و در ڈالے گئے
نقوی! اپنی زندگی بھی کربلا جیسی لگی
اس طرح اس عہد میں سر کاٹ کر ڈالے گئے
محمد صدیق نقوی
No comments:
Post a Comment