کوئی منزل نہ راستا ہے آج
لمحہ لمحہ بھٹک رہا ہے آج
زندگی کی عجب ادا ہے آج
زندگی خود سے بھی خفا ہے آج
فاصلے اب کہاں ہیں دنیا میں
صرف اپنوں میں فاصلا ہے آج
دور اندیش کس قدر ہے وہ
غم فردا بھی دیکھتا ہے آج
صرف انساں کا لفظ زندہ ہے
ورنہ انسان مر گیا ہے آج
اب اسی کو خلوص کہتے ہیں
پاس جس کے کوئی ادا ہے آج
کون ہے جو حسینؑ بن کے اٹھے
پھر وہی دشتِ کربلا ہے آج
شبنم نقوی
No comments:
Post a Comment