Friday, 31 January 2025

پھر وہی دشت کربلا ہے آج

 کوئی منزل نہ راستا ہے آج

لمحہ لمحہ بھٹک رہا ہے آج

زندگی کی عجب ادا ہے آج

زندگی خود سے بھی خفا ہے آج

فاصلے اب کہاں ہیں دنیا میں

صرف اپنوں میں فاصلا ہے آج

دور اندیش کس قدر ہے وہ

غم فردا بھی دیکھتا ہے آج

صرف انساں کا لفظ زندہ ہے

ورنہ انسان مر گیا ہے آج

اب اسی کو خلوص کہتے ہیں

پاس جس کے کوئی ادا ہے آج

کون ہے جو حسینؑ بن کے اٹھے

پھر وہی دشتِ کربلا ہے آج


شبنم نقوی

No comments:

Post a Comment