یہ سانحہ تھا ملاقات اور باقی ہے
ٹھہر بھی جاؤ کہ کچھ رات اور باقی ہے
فسانۂ شب ہستی تو کہہ چکے لیکن
یہ رنج ہے کہ کوئی بات اور باقی ہے
اسی امید میں لو دے رہی ہے شمع حیات
سلگ بھی جائے تو برسات اور باقی ہے
فنا کے نام پہ لبیک کہہ چکے ورنہ
وجود کشمکش ذات اور باقی ہے
تو مجھ کو بھول بھی جا یہ مگر خیال رہے
کہ کچھ دنوں تو ترا سات اور باقی ہے
میر نقی علی خاں ثاقب
No comments:
Post a Comment