Saturday, 25 January 2025

یہ سانحہ تھا ملاقات اور باقی ہے

 یہ سانحہ تھا ملاقات اور باقی ہے

ٹھہر بھی جاؤ کہ کچھ رات اور باقی ہے

فسانۂ شب ہستی تو کہہ چکے لیکن

یہ رنج ہے کہ کوئی بات اور باقی ہے

اسی امید میں لو دے رہی ہے شمع حیات

سلگ بھی جائے تو برسات اور باقی ہے

فنا کے نام پہ لبیک کہہ چکے ورنہ

وجود کشمکش ذات اور باقی ہے

تو مجھ کو بھول بھی جا یہ مگر خیال رہے

کہ کچھ دنوں تو ترا سات اور باقی ہے


میر نقی علی خاں ثاقب

No comments:

Post a Comment