Thursday, 23 January 2025

خیال آتشیں خوابیدہ صورتیں دی ہیں

 خیال آتشیں خوابیدہ صورتیں دی ہیں

سخائے ہجر نے اب بھی نمائشیں دی ہیں

یہ اب جو خواب زمانوں نے دستکیں دی ہیں

پس مراد حقائق کی منزلیں دی ہیں

مِرے لباس کے پیوند مفلسی پہ نہ جا

مِرے جنوں نے محبت کو خلعتیں دی ہیں

مِرے مزاج کا موسم عجیب موسم ہے

کہ جس کے غم نے بھی ہستی کو رونقیں دی ہیں

ہم اہل عشق نے تاوان راحتیں دے کر

حدود عرصۂ وحشت کو وسعتیں دی ہیں

چلو یہ بات غلط ہے تو پھر بتاؤ مجھے

ہر ایک ہاتھ میں کس کس نے مشعلیں دی ہیں

شعور جائے تو فرصت سے نیند بھی آئے

فشار ذات نے فرحت کو رنجشیں دی ہیں


محمد فرحت عباس

No comments:

Post a Comment