جب ہم کو تغافل میں کبھی یاد کرو گے
ہم خوب سمجھتے ہیں جو بیداد کرو گے
کیا خاک توقع ہو پذیرائیٔ غم کی
تم خاک علاج دل ناشاد کرو گے
وہ ہم کہ گرفتار تغافل ہی رہیں گے
وہ تم ہو کہ بھولے سے کبھی یاد کرو گے
یہ رسم و رہ نازش بے جا نہ مٹے گی
کچھ تازہ ستم اور بھی ایجاد کرو گے
ڈھونڈو گے بہت ہم کو مگر ہم نہ ملیں گے
تڑپو گے بہت روؤ گے فریاد کرو گے
وہ شمع محبت نہ جلی ہے نہ جلے گی
روشن جو سر رہ گزر یاد کرو گے
اندیشۂ رسوائی سے اب اور کہاں تک
تشہیر غم عشق خدا داد کرو گے
موہوم سی اک آس پہ جیتے ہیں ابھی تک
یعنی کہ کسی روز تو تم یاد کرو گے
احمر سے بہر طور تمہیں ربط رہا ہے
احمر ہی کو بھولے تو کسے یاد کرو گے
احمر رفاعی
ڈاکٹر احمد حسین احمر
No comments:
Post a Comment