سروں پہ دھوپ کا اک سائبان رہنے دے
زمیں رہے نہ رہے آسمان رہنے دے
میں آگہی کی فصیلوں کو چوم آیا ہوں
مِرے خدا تو مجھے بے زبان رہنے دے
امیرِ شہر کا ایوان کانپ اٹھے گا
غریبِ شہر ہوں میرا بیان رہنے دے
مِرے خدا تِرے دوزخ کو خلد سمجھوں گا
میں اک بشر ہوں مِرا امتحان رہنے دے
مہک تو گل کی ہر اک سمت جائے گی صائب
وہ چاہتا ہے تجھے یہ گمان رہنے دے
فیاض الدین صائب
No comments:
Post a Comment