Wednesday, 22 January 2025

سروں پہ دھوپ کا اک سائبان رہنے دے

 سروں پہ دھوپ کا اک سائبان رہنے دے

زمیں رہے نہ رہے آسمان رہنے دے

میں آگہی کی فصیلوں کو چوم آیا ہوں

مِرے خدا تو مجھے بے زبان رہنے دے

امیرِ شہر کا ایوان کانپ اٹھے گا

غریبِ شہر ہوں میرا بیان رہنے دے

مِرے خدا تِرے دوزخ کو خلد سمجھوں گا

میں اک بشر ہوں مِرا امتحان رہنے دے

مہک تو گل کی ہر اک سمت جائے گی صائب

وہ چاہتا ہے تجھے یہ گمان رہنے دے


فیاض الدین صائب

No comments:

Post a Comment