چہرے سے مرا درد کوئی بھانپ رہا ہے
کھل جائے کہیں راز نہ دل کانپ رہا ہے
احساس جدائی کا یوں ڈستا رہا شب بھر
جیسے مرے سینے میں کوئی سانپ رہا ہے
جب قتل کی سازش میں ملوث وہ نہیں تھا
پھر آنکھ ملاتے ہوئے کیوں کانپ رہا ہے
کیا اس سے رکھوں راہنمائی کی توقع
کچھ دور ہی چل کر جو بہت ہانپ رہا ہے
کس طرح شکیل آپ کو وہ قتل کرے گا
تلوار اٹھاتے ہوئے جو کانپ رہا ہے
فاروق شکیل
No comments:
Post a Comment