Saturday, 25 January 2025

چہرے سے مرا درد کوئی بھانپ رہا ہے

 چہرے سے مرا درد کوئی بھانپ رہا ہے

کھل جائے کہیں راز نہ دل کانپ رہا ہے

احساس جدائی کا یوں ڈستا رہا شب بھر

جیسے مرے سینے میں کوئی سانپ رہا ہے

جب قتل کی سازش میں ملوث وہ نہیں تھا

پھر آنکھ ملاتے ہوئے کیوں کانپ رہا ہے

کیا اس سے رکھوں راہنمائی کی توقع

کچھ دور ہی چل کر جو بہت ہانپ رہا ہے

کس طرح شکیل آپ کو وہ قتل کرے گا

تلوار اٹھاتے ہوئے جو کانپ رہا ہے


فاروق شکیل

No comments:

Post a Comment