اقرار کی طرف ہو کہ انکار کی طرف
سمتِ موجود ہے مگر اظہار کی طرف
اک لفظ کا سفر تھا بیاباں کی رات میں
خاموشیوں کے گُونجتے اسرار کی طرف
میٹھے سُروں کی جیبھ نے کاٹا تھا جب مجھے
اس دن سے میں ہوں سانپ کی پھنکار کی طرف
ان کی بصارتوں کا ہدف جس طرف بھی ہو
سورج کی آنکھ ہے ’اولی الابصار‘ کی طرف
سیاحتوں کے شہر گواہی میں پیش ہیں
آیا ہوں سمتِ خیر سے اشرار کی طرف
باغوں کو باغ کون کہے گا اگر نہ ہو
پانی کی ایک بُوند بھی انہار کی طرف
عبدالقیوم صبا
No comments:
Post a Comment