کُھلے گا عقدۂ توحید میری بات کے ساتھ
صفت بھی رہتی ہے ہر وقت اپنی ذات کے ساتھ
کہیں پہ بکھری ہے تنہائی میرے کمرے میں
کہیں پہ بکھری ہیں تصویریں کاغذات کے ساتھ
میں اس سے ہار کے ہر پل دُعائیں مانگتا ہوں
کہ اس کی جیت بھی ہو جائے میری مات کے ساتھ
وہ کل جو لاٹھی کو اک اژدہا بناتا تھا
وہ معجزہ کہیں گُم ہے عجائبات کے ساتھ
یہ سارا پڑھنا پڑھانا ہے پیٹ کا چکر
کہ اہل علم بھی بکتے ہیں پارچات کے ساتھ
کہیں پہ دین کے چرچے ہیں کُفر سے واقف
کہیں پہ کفر کے چرچے ہیں دینیات کے ساتھ
سلیم واقف
No comments:
Post a Comment