کسی کی یاد پھر خلوت نشیں معلوم ہوتی ہے
طبیعت آج کل اندوہ گیں معلوم ہوتی ہے
محبت کا ہر اک سجدہ بھی معراج محبت ہے
مقام عرش اب میری جبیں معلوم ہوتی ہے
کبھی شبنم کبھی تارے کبھی تم مسکراتے ہو
محبت کی ہر اک ساعت حسیں معلوم ہوتی ہے
اگر تم مسکراؤ بھی تو دل پر چوٹ لگتی ہے
تمہاری ہر ادا درد آفریں معلوم ہوتی ہے
ادھر روپوش ہیں تارے ادھر گھر میں اداسی ہے
شب غم کیا قیامت آفریں معلوم ہوتی ہے
جہاں رکھتا ہوں سر اپنا سمٹ آتی ہے کل دنیا
مجھے تقدیس سجدہ اب کہیں معلوم ہوتی ہے
ذرا ٹھہرو! مجھے کہنے بھی دو روداد غم اپنی
عجب خوشی تمہاری نکتہ چیں معلوم ہوتی ہے
میں صحرا میں بھی جنت کے مزے لیتا ہوں اے فائق
طبیعت خود مِری حسن آفریں معلوم ہوتی ہے
فائق برہانپوری
No comments:
Post a Comment