آغازِ جفا یاد نہ انجامِ وفا یاد
جب سامنے تم آئے تو کچھ بھی نہ رہا یاد
اب یادِ نشیمن ہے نہ بجلی کی جفا یاد
نکلے تھے کچھ ایسے کہ چمن تک نہ رہا یاد
جس نے مِری سوئی ہوئی دنیا کو جگایا
آ جاتی ہے اب بھی وہ محبت کی صدا یاد
احساس سا ہوتا ہے دھڑکتے ہوئے دل کو
شاید مجھے بھولی ہوئی دنیا نے کیا یاد
جو دل میں تمنا تھا جو آنکھوں میں شرر تھا
اب بھی ہے اس آنسو کے ٹپکنے کی صدا یاد
دیدار کی حسرت تھی تمنا تھی گلہ تھا
جب ہوش مجھے آیا تو کچھ بھی نہ رہا یاد
وہ آتش رخسار نہ وہ شعلہ و ساغر
کچھ بھی نہیں مخمور نگاہوں کے سوا یاد
جس نے کہ ملائے تھے ستاروں سے ستارے
اب تک ہے اس انگڑائی کے لینے کی ادا یاد
پھولوں میں وہ ہلکی سی کلی کھل گئی جیسے
اے فضل! وہ انداز تبسم ہی رہا یاد
فضل لکھنوی
No comments:
Post a Comment