طوفان میں نکل پڑے شوریدہ سر سبھی
کار جنوں میں پھرتے ہیں بن کے شرر سبھی
اک صبح مرے شہر کا منظر عجیب تھا
پتھر کے سب مکان تھے، مٹی کے گھر سبھی
اب کون کسے حرفِ تسلی ادھار دے
تیری گلی میں بیٹھے ہیں تشنہ جگر سبھی
لوٹے گئے ہیں بے سر و سامان مسافر
انجان مگر قافلے کے معتبر سبھی
تم نے تو ایک پل میں شجر سب گرا دئیے
اور ان پہ رہنے والے ہوئے در بدر سبھی
اے بادِ صبا! ہم سے گناہ گار کیا کریں؟
دنیا میں ہو گئے ہیں فرشتے، بشر سبھی
صبا خان
No comments:
Post a Comment