Sunday, 19 January 2025

طوفان میں نکل پڑے شوریدہ سر سبھی

 طوفان میں نکل پڑے شوریدہ سر سبھی

کار جنوں میں پھرتے ہیں بن کے شرر سبھی

اک صبح مرے شہر کا منظر عجیب تھا

پتھر کے سب مکان تھے، مٹی کے گھر سبھی

اب کون کسے حرفِ تسلی ادھار دے

تیری گلی میں بیٹھے ہیں تشنہ جگر سبھی

لوٹے گئے ہیں بے سر و سامان مسافر

انجان مگر قافلے کے معتبر سبھی

تم نے تو ایک پل میں شجر سب گرا دئیے

اور ان پہ رہنے والے ہوئے در بدر سبھی

اے بادِ صبا! ہم سے گناہ گار کیا کریں؟

دنیا میں ہو گئے ہیں فرشتے، بشر سبھی


صبا خان

No comments:

Post a Comment