Tuesday, 21 January 2025

ممکن ہے پھر تلافی مافات ہو نہ ہو

 ممکن ہے پھر تلافئ مافات ہو نہ ہو

آ جا کہ اس کے بعد کوئی بات ہو نہ ہو

شاید کہ زیست سانس بھی لینے نہ دے ہمیں

شاید کہ اس کے بعد ملاقات ہو نہ ہو

اب تک تو آنسوؤں کی جھڑی ہے لگی ہوئی

 پھر کون جانتا ہے کہ برسات ہو نہ ہو

اک اپنے جیتے جی ہو چراغاں کا اہتمام

مرنے کے بعد پھر کوئی بارات ہو نہ ہو

دو چار جام پی لو عزیزو! کہ کیا خبر

ساقی کی ہم پہ چشم عنایات ہو نہ ہو

یہ بے کسی کی رات غنیمت ہے فیض جی

پھر سے یہ بے کسی کی کبھی رات ہو نہ ہو


فیض تبسم تونسوی

No comments:

Post a Comment