کسی کے چھوڑ جانے سے یہاں کچھ کم نہیں ہوتا
سبھی مصروف رہتے ہیں کسی کو غم نہیں ہوتا
جہاں بھر کے جریدوں میں معیشت کے ڈراموں میں
بقائے آدمیت پر کوئی کالم نہیں ہوتا
مجھے پھر سے محبت پر کیا تھا جس نے آمادہ
ملے ایسے اب وہ جیسے کوئی سنگم نہیں ہوتا
مِرے عیسیٰ نے غیروں کو اداؤں سے کیا زندہ
مگر زخموں کا میرے اس سے کچھ مرہم نہیں ہوتا
یہ کیا جنگ و جدل برپا ہے اس ارضِ محبت پر
کہ مینارِ محبت پر کوئی پرچم نہیں ہوتا
مجھے دل میں گِلہ رکھنا ضمیر آتا نہیں پیارے
کسی مومن کے سینے میں دلِ برہم نہیں ہوتا
ضمیر حیدر ضمیر
بصارت سے محروم شاعر
No comments:
Post a Comment