Saturday, 25 January 2025

لوگ اٹھے ہیں تری بزم سے کیا کیا ہو کر

 لوگ اٹھے ہیں تری بزم سے کیا کیا ہو کر

اور اک ہم ہیں کہ نکلے بھی تو رسوا ہو کر

تیر مژگاں کا ہے یہ گھاؤ بھرے تو کیسے

اب تو ناسور بنا زخم یہ گہرا ہو کر

شوق دیدار طلب حد ادب سے جو بڑھا

حسن نے تاب نظر چھین لی جلوہ ہو کر

خار کی طرح کھٹکتا ہوں نگاہ دل میں

گل پہ قربان ہوں میں بلبل شیدا ہو کر

رائیگاں خود کو نہ کر بزم وفا میں اے دل

یوں نہ آنکھوں سے ٹپک خون تمنا ہو کر

کہہ رہے ہیں یہ حجابات تجلی مجھ سے

جلوۂ حسن ہے خود حسن کا پردہ ہو کر

تم فرشتے ہی سہی میں ہوں بہرحال بشر

گفتگو مجھ سے کرو جب بھی تو مجھ سا ہو کر

مدعی ہو جو وفا کے تو ستم سہتے رہو

لب پہ آئے نہ کوئی حرف بھی شکوہ ہو کر

کبھی بن بن کے مٹو مثل حباب اے رفعت

رنگزاروں میں رہو نقش کف پا ہو کر


رفعت سیٹھی

No comments:

Post a Comment