لوگ اٹھے ہیں تری بزم سے کیا کیا ہو کر
اور اک ہم ہیں کہ نکلے بھی تو رسوا ہو کر
تیر مژگاں کا ہے یہ گھاؤ بھرے تو کیسے
اب تو ناسور بنا زخم یہ گہرا ہو کر
شوق دیدار طلب حد ادب سے جو بڑھا
حسن نے تاب نظر چھین لی جلوہ ہو کر
خار کی طرح کھٹکتا ہوں نگاہ دل میں
گل پہ قربان ہوں میں بلبل شیدا ہو کر
رائیگاں خود کو نہ کر بزم وفا میں اے دل
یوں نہ آنکھوں سے ٹپک خون تمنا ہو کر
کہہ رہے ہیں یہ حجابات تجلی مجھ سے
جلوۂ حسن ہے خود حسن کا پردہ ہو کر
تم فرشتے ہی سہی میں ہوں بہرحال بشر
گفتگو مجھ سے کرو جب بھی تو مجھ سا ہو کر
مدعی ہو جو وفا کے تو ستم سہتے رہو
لب پہ آئے نہ کوئی حرف بھی شکوہ ہو کر
کبھی بن بن کے مٹو مثل حباب اے رفعت
رنگزاروں میں رہو نقش کف پا ہو کر
رفعت سیٹھی
No comments:
Post a Comment