Wednesday, 15 January 2025

تم سے ملنا بھی نہیں تم سے بچھڑنا بھی نہیں

 تم سے ملنا بھی نہیں تم سے بچھڑنا بھی نہیں

وقت کے جیسے مگر ہم کو بدلنا بھی نہیں

عشق نے پھر ہمیں اک بار ہے بخشا صحرا

دریا ملنا بھی نہیں، ابر برسنا بھی نہیں

بڑی مشکل سے چھپاتے ہیں زمانے سے تمہیں

زخم رسنا بھی ہے اور آنکھ کو گلنا بھی نہیں

وہ کہیں دور بہت دور گیا ہے مجھ سے

اس کو آنا بھی نہیں ہم کو مچلنا بھی نہیں

سر میں بیٹھی ہے انا سینے میں چبھتی باتیں

گلے ملتے ہیں مگر دل کبھی ملنا بھی نہیں

خواب پیروں تلے شانوں پہ ہے ذمہ داری

ہم کو اڑنا بھی ہے پنکھوں کو نکلنا بھی نہیں

ضبط کے جسم میں رہنے دو مِری ذات کو تم

میں جو بگڑا تو میں دنیا سے سنبھلنا بھی نہیں


دخلن بھوپالی

No comments:

Post a Comment