تم سے ملنا بھی نہیں تم سے بچھڑنا بھی نہیں
وقت کے جیسے مگر ہم کو بدلنا بھی نہیں
عشق نے پھر ہمیں اک بار ہے بخشا صحرا
دریا ملنا بھی نہیں، ابر برسنا بھی نہیں
بڑی مشکل سے چھپاتے ہیں زمانے سے تمہیں
زخم رسنا بھی ہے اور آنکھ کو گلنا بھی نہیں
وہ کہیں دور بہت دور گیا ہے مجھ سے
اس کو آنا بھی نہیں ہم کو مچلنا بھی نہیں
سر میں بیٹھی ہے انا سینے میں چبھتی باتیں
گلے ملتے ہیں مگر دل کبھی ملنا بھی نہیں
خواب پیروں تلے شانوں پہ ہے ذمہ داری
ہم کو اڑنا بھی ہے پنکھوں کو نکلنا بھی نہیں
ضبط کے جسم میں رہنے دو مِری ذات کو تم
میں جو بگڑا تو میں دنیا سے سنبھلنا بھی نہیں
دخلن بھوپالی
No comments:
Post a Comment