Friday, 31 January 2025

گلی گلی ہے اندھیرا کوئی صدا تو ملے

 گلی گلی ہے اندھیرا کوئی صدا تو ملے

گُھٹی گُھٹی سی فضا ہے کہیں ہوا تو ملے

میں اپنے چہرے کی ویرانیاں کُھرچ ڈالوں

بس ایک لمحے کو جینے کا ذائقہ تو ملے

اسی لیے تو اُڑائی ہیں دھجیاں اپنی

جنوں کو شعلہ مزاجی کا کچھ مزہ تو ملے

بس ایک نقد نفس ہے سو کیا کروں اس کو

کہاں جُھکاؤں یہ سر، کوئی پارسا تو ملے

میں اور قدروں کا ہوں ماحضر ہے مجبوری

یہاں سے بھاگ نکلنے کا راستہ تو ملے

چلو کہ ڈُوبتے سُورج کو پھاند کر دیکھیں

یہاں کوئی نہیں، شاید اُدھر خُدا تو ملے

کچھ اس مقام پہ لائی ہے خُودسری مجھ کو

تڑپ رہا ہوں کوئی صُورت آشنا تو ملے

اسی خلش میں گنوائے ہیں دو جہاں حمدون

کسی بھی طور کہیں دورِ سابقہ تو ملے


حمدون عثمانی

No comments:

Post a Comment