مدعا دل کا کبھی لب آشنا ہوتا نہیں
عشق کا مفہوم لفظوں میں ادا ہوتا نہیں
حُسن والوں کا کرم دل پر روا ہوتا نہیں
یہ خبر ہوتی تو ان پر مُبتلا ہوتا نہیں
موت سے بد تر ہے تیرے آسرے پر زندگی
کاش کوئی زندگی کا آسرا ہوتا نہیں
آپ کے ہمراہ سب دامن کشاں ہونے لگے
آج دل میں درد بھی کل سے سوا ہوتا نہیں
ہجر کا غم ہر گھڑی ہے ساتھ سائے کی طرح
یعنی تاریکی میں بھی مجھ سے جُدا ہوتا نہیں
میں گدائے کُوئے جاناں ہوں تو سب ہیں طعنہ زن
ورنہ قیصر! عالم امکاں میں کیا ہوتا نہیں
قیصر حیدری دہلوی
No comments:
Post a Comment