Tuesday, 28 January 2025

اک دن ہوئی تھی ان سے ملاقات دیر تک

 اک دن ہوئی تھی ان سے ملاقات دیر تک

دل میں بسے رہے وہی لمحات دیر تک

جس رات روٹھ کر وہ اچانک چلے گئے

ہم کو نہ نیند آئی تھی اس رات دیر تک

مجھ پر نظر پڑی تو وہ مغرور ہو گئے

پیش نظر رہی مِری اوقات دیر تک

یاد آ گئیں جو پیار کی ساون رتیں کبھی

برسی ہماری آنکھ سے برسات دیر تک

کل تک پتہ نہیں تھا ہمیں جن کے ظرف کا

پرکھے ہیں آج ان کے خیالات دیر تک

پنچھی تمام اڑ گئے کٹنے لگے شجر

کچھ ٹہنیوں پہ پھر بھی رہے پات دیر تک

شوکت ،عجب نہیں کوئی تحریک لے جنم

لکھتے رہو ستم کی حکایات دیر تک


غلام فرید شوکت

No comments:

Post a Comment