اک دن ہوئی تھی ان سے ملاقات دیر تک
دل میں بسے رہے وہی لمحات دیر تک
جس رات روٹھ کر وہ اچانک چلے گئے
ہم کو نہ نیند آئی تھی اس رات دیر تک
مجھ پر نظر پڑی تو وہ مغرور ہو گئے
پیش نظر رہی مِری اوقات دیر تک
یاد آ گئیں جو پیار کی ساون رتیں کبھی
برسی ہماری آنکھ سے برسات دیر تک
کل تک پتہ نہیں تھا ہمیں جن کے ظرف کا
پرکھے ہیں آج ان کے خیالات دیر تک
پنچھی تمام اڑ گئے کٹنے لگے شجر
کچھ ٹہنیوں پہ پھر بھی رہے پات دیر تک
شوکت ،عجب نہیں کوئی تحریک لے جنم
لکھتے رہو ستم کی حکایات دیر تک
غلام فرید شوکت
No comments:
Post a Comment