Wednesday, 29 January 2025

کچھ ایسے کی ہے ادا رسم بندگی میں نے

 کچھ ایسے کی ہے ادا رسم بندگی میں نے

گزار دی ترے وعدے پہ زندگی میں نے

اڑا کے دھجیاں دامن کی کرتا کیوں رسوا

جنوں میں کی نہ گوارہ درندگی میں نے

ذرا بھی شکوۂ جور و جفا نہیں لب پر

تِری رضا کو جو سمجھا ہے بندگی میں نے

عزیز جان سے زیادہ مجھے ہے یہ غم دوست

کہ غم میں پائی ہے اک شرح زندگی میں نے

حضور حسن ہوا ہے یہ واقعہ اکثر

حواس و ہوش کی دیکھی پرندگی میں نے

ضیائے مہر ہدایت کی تابشیں لے کر

جلا دی کفر و ضلالت کی گندگی میں نے

مثال لالہ و صحرا سہم سہم کے رہا

ہجوم خار میں کاٹی ہے زندگی میں نے

لگائیں کفر کے فتوے ہزار اہل خرد

کیا ہے پیش صنم عہد بندگی میں نے

نہ ملنے پر بھی اسے عیش پیار کرتا ہوں

یوں اونچا کر دیا معیار زندگی میں نے


عیش میرٹھی

No comments:

Post a Comment