کچھ ایسے کی ہے ادا رسم بندگی میں نے
گزار دی ترے وعدے پہ زندگی میں نے
اڑا کے دھجیاں دامن کی کرتا کیوں رسوا
جنوں میں کی نہ گوارہ درندگی میں نے
ذرا بھی شکوۂ جور و جفا نہیں لب پر
تِری رضا کو جو سمجھا ہے بندگی میں نے
عزیز جان سے زیادہ مجھے ہے یہ غم دوست
کہ غم میں پائی ہے اک شرح زندگی میں نے
حضور حسن ہوا ہے یہ واقعہ اکثر
حواس و ہوش کی دیکھی پرندگی میں نے
ضیائے مہر ہدایت کی تابشیں لے کر
جلا دی کفر و ضلالت کی گندگی میں نے
مثال لالہ و صحرا سہم سہم کے رہا
ہجوم خار میں کاٹی ہے زندگی میں نے
لگائیں کفر کے فتوے ہزار اہل خرد
کیا ہے پیش صنم عہد بندگی میں نے
نہ ملنے پر بھی اسے عیش پیار کرتا ہوں
یوں اونچا کر دیا معیار زندگی میں نے
عیش میرٹھی
No comments:
Post a Comment