چلو کہ زخم کریدیں، خیال کیسا ہے؟
پھر اپنے آپ سے پوچھیں کہ حال کیسا ہے
ستائیں اتنا کہ اک دن پلٹ کے وار کریں
پھر اس کے بعد سزا دیں یہ جال کیسا ہے
تمہارے طرزِ عدل کا کوئی جواب نہیں
مگر جو پیدا ہوا ہے سوال کیسا ہے؟
لگاؤ پیڑ تو سائے کی آرزو نہ رکھو
ملے گی چھاؤں کسی کو ملال کیسا ہے
تمہارے سچ کے خریدار اور بہت ہوں گے
صبا! ہمیں تو خبر ہے کہ مال کیسا ہے
صبا واسطی
No comments:
Post a Comment